spot_img
HomeਆਰਟੀਕਲUrduخلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس...

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ11؍نومبر

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہورہا تھا۔ آپؓ کی سیرت کا کچھ حصہ بیان ہوا تھا۔ اس بارے میں جو روایات ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ آپ حسب و نسب کے ماہر تھے اور شعری ذوق بھی رکھنے والے تھے۔ آپؓ لوگوں میں سب سے زیادہ اہل عرب کے حسب و نسب کو جاننے والے تھے۔خاص طور پر قریش کی اچھائیوں اور برائیوں کاسب سے زیادہ علم رکھنے والے تھےلیکن آپؓ اُن کی برائیوں کا تذکرہ نہیں کیا کرتے تھے۔اسی وجہ سے آپؓ حضرت عقیل بن ابو طالب ؓکی نسبت قریش میں زیادہ مقبول تھے۔حضرت عقیلؓ حضرت ابوبکر ؓکے بعدقریش کے حسب و نسب اور اُن کے آباءواجداد اور اُن کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھےمگر حضرت عقیل ؓ قریش کو ناپسندیدہ تھے کیونکہ وہ اُن کی برائیوں کا بھی ذکر کردیتے تھے۔

اہل مکہ کے نزدیک حضرت ابوبکر ؓاُن کے بہترین لوگوں میں سے تھے۔چنانچہ جب بھی ا ُن کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ حضرت ابوبکر ؓسے مدد طلب کرتے تھے۔جب قریش کے شعراء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں اشعار کہے تو حسان بن ثابت ؓکو اُن کے اشعار کا جواب دینے کی ذمہ داری دی گئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابتؓ کو فرمایا کہ قریش کے حسب و نسب کے بارے میں حضرت ابوبکر ؓسے پوچھ لیا کرو۔حضرت حسان ؓکے اشعار جب مکہ جاتے تو وہ کہتے کہ ان اشعار کے پیچھے حضرت ابوبکر ؓکی راہنمائی اور مشورہ شامل ہے۔

حضرت ابوبکر ؓکے سیرت نگاروں نے یہ بحث اُٹھائی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓنے باقاعدہ طور پر اشعار کہے تھے یا نہیں۔حضرت ابوبکر ؓکے پچیس قصائد پر مشتمل ایک مخطوط ترکی کے ایک کتب خانہ سے دستیاب ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر ؓکے اشعار ہیں۔اس میں کسی لکھنے والے نے یہاںتک لکھا ہے کہ مجھے ان اشعار کی حضرت ابوبکرؓ کی جانب نسب کی تصدیق الہامی طور پر ہوئی ہے۔طبقات ابن سعد اور سیرت ابن ہشام نے یہی لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کچھ اشعار کہے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپؐ کی تدفین کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے اشعار یہ بیان کیےجاتے ہیں۔ ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ اے آنکھ تجھے سیّدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر رونے کے حق کی قسم !تُو روتی رہے اور تیرے آنسو کبھی نہ تھمے۔ اے آنکھ!قبیلہ قریش کے بہترین فرزند پر آنسو بہاجو کہ شام کے وقت لحدمیں چھپا دیے گئے ہیں۔پس بادشاہوں کے بادشاہ، بندوں کے والی اور عبادت کرنے والوں کے ربّ کا آپؐ پر درود ہو۔پس حبیب ؐکے بچھڑ جانے کے بعد اب کیسی زندگی ۔دس جہانوں کو زینت بخشنے والی ہستی کی جدائی کے بعد کیسی آراستگی ۔ پس جس طرح ہم سب زندگی میں بھی ساتھ ہی تھے کاش موت بھی ایک ساتھ ہم سب کو گھیرے میں لے لیتی۔

حضرت ابوبکر ؓبہت صاحب فراست تھے۔حضرت ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے دنیاکا یا اُس کا جو اللہ کے پاس ہے ۔ تو اُس نے جو اللہ کے پاس ہے اُس کو پسند کیا ہے ۔اس پر حضرت ابوبکر ؓرو پڑے۔تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بزرگ کو کیا بات رُلا رہی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ؓمت رو۔یقیناً تمام لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ سے نیکی کرنے والاسب سے بڑھ کر ابوبکر ؓہی ہے۔اگر میں اپنی امّت میں سے کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو میں ابوبکرؓ کو بناتا۔اسی ضمن میں حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام آئے تو ایک دن آپؐ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایاکہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے اُس کو اُس کے خدا نے مخاطب کیا اور کہا کہ اے میرے بندے میں تجھے اختیار دیتا ہوں کہ چاہے تو دنیا میں رہ اور چاہے تو میرے پاس آجا۔اس پر اُس بندے نے خدا کے قرب کو پسند کیا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو حضرت ابوبکر ؓرو پڑے اور آپؓ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ابوبکرؓ سے مجھے اتنی محبت ہے کہ اگر خدا کے سِوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکرؓ کو بناتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡپڑھی توحضرت ابوبکرؓرو پڑے اور کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بُو آتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاءعلیہم السلام بطور حکام کے ہوتے ہیںجیسے بندوبست کا ملازم جب اپنا کام کرچکتا ہے تو وہاں سے چل دیتا ہے۔اسی طرح انبیاءعلیہم السلام جس کام کے واسطے دنیا میں آتے ہیں اور جب اس کو کرلیتے ہیں تو وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔پس جب اَلۡیَوۡمَاَکۡمَلۡتُلَکُمۡدِیۡنَکُمۡکیصداپہنچیتوحضرتابوبکرؓنےسمجھلیاکہیہآخریصداہے۔اسسےصافظاہرہوتاہےکہحضرت ابوبکر ؓکا فہم بہت بڑھا ہوا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مولویوں سے پوچھو کہ ابوبکر ؓدانش مند تھے کہ نہیں۔کیا وہ ابوبکر ؓنہ تھے جو صدیق کہلایا۔کیا یہی وہ شخص نہیں جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ بنےجس نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی کہ خطرناک ارتداد کی وباکو روک دیا۔پھر تقویٰ سے بتاؤ کہ انہوں نےوَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌۚقَدۡخَلَتۡ مِنۡقَبۡلِہِالرُّسُلُپڑھاتواسسےاستدلالتامکرناتھایاایساناقصکہایکبچہبھیکہہسکتاکہعیسیٰکوموتیٰسمجھنےوالاکافرہوتاہے۔یعنییہآیتپڑھنےکامطلبہییہتھاکہایکبڑیواضحاورٹھوسدلیلدیجائےنہکہناقصدلیل۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں کہ اَلۡیَوۡمَاَکۡمَلۡتُلَکُمۡدِیۡنَکُمۡکیآیتدوپہلورکھتیہے۔ایکیہکہتمہاریتطہیرکرچکا۔دومکتابمکملکرچکا۔یہمقررشدہباتہےکہجبکامہوچکتاہےتواُسکاپوراہوناہیوفاتپردلالتکرتاہے۔ جیسا دنیا میں بندوبست ہوتے ہیں اور جب وہ ختم ہوتا ہے تو عملہ وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ والا قصہ سنا تو فرمایا سب سے سمجھدار ابوبکر ہے اور یہ فرمایا کہ اگر دنیا میں کسی کو دوست رکھتا تو ابوبکر کو رکھتا۔ اور فرمایا ابوبکر کی کھڑکی مسجد میں کھلی رہے گی۔ باقی سب بند کر دو۔ کوئی پوچھو کہ اس میں مناسبت کیا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ یاد رکھو کہ مسجد خانہ خدا ہے جو سرچشمہ ہے تمام حقائق و معارف کا۔ اس لئے فرمایا کہ ابوبکر کی اندرونی کھڑکی اس طرف ہے تو اس کے لئے یہ بھی کھڑکی رکھی جاوے۔ یہ بات نہیں کہ اور صحابہ محروم تھے۔ ان میں بھی تھے بڑے بڑے فراست والے لیکن سب سے زیادہ حضرت ابوبکرؓ میں تھے بلکہ ابوبکرؓ  کی فضیلت وہ ذاتی فراست تھی جس نے ابتدا میں بھی اپنا نمونہ دکھایا اور انتہا میں بھی۔ گویا ابوبکرؓ  کا وجود مجموعۃ الفراستین تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب تجربہ اور صاحب فراست لوگوں میں سے تھے۔آپؓ نے بہت سے پیچیدہ اُمور اور اُن کی سختیوں کو دیکھااور کئی معرکوں میں شامل ہوئےاور اُن کی جنگی چالوں کا مشاہدہ کیا۔کئی صحرا اور کوہسار روندے۔کتنے ہی ہلاکت کے مقام تھے جن میں آپؓ بےدریغ گھس گئے۔کتنی کج راہیں تھیں جن کو آپؓ نے سیدھا کیا۔کئی جنگوں میں آپؓ نے پیش قدمی کی۔کتنے ہی فتنے تھے جن کو آپؓ نے نیست و نابود کیا۔بہت سے مراحل طے کیے یہاںتک کہ آپؓ صاحب تجربہ اور صاحب فراست بن گئے۔آپؓ مصائب پر صبر کرنے والے اور صاحب ریاضت تھے۔پس اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اپنی آیات کے مورد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے چنااور آپؓ کے صدق و ثبات کے باعث آپؓ کی تعریف کی۔یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں میں سے سب سے بڑھ کر ہیں۔آپؓ حریت کے خمیر سے پیدا کیے گئے اور وفا آپؓ کی گھٹی میں تھی اس وجہ سے آپؓ کو خوفناک اہم اَمر اور ہوش رُبا خوف کے وقت منتخب کیا گیا۔اللہ علیم و حکیم ہے۔ وہ تمام اُمور کو اُن کے موقع و محل پررکھتا ہے۔اُس نے ابن ابی قحافہ پر خاص التفات فرمایااور اُسے یگانہ روزگار شخصیت بنادیا۔

حضرت ابوبکر ؓکو تعبیر الرؤیاکا فن بھی بہت آتا تھا۔لکھا ہے کہ علم تعبیرمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ بڑا ملکہ رکھتے تھےیہاںتک کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپؓ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے۔امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ سب سے بڑے معبر تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں جن چند احباب کو مسجد نبوی میں نماز پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی اُن میں حضرت ابوبکر ؓبھی شامل ہیں۔حضرت ابوبکر ؓکی ایک خصوصی سعادت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نمازیں پڑھانے کی سعادت میسر آئی۔حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب ابوبکرؓ ہوں تو مناسب نہیں کہ کوئی اورامامت کروائے۔

حضور انور نے آخرمیں فرمایاکہ یہ ذکر انشاءللہ آئندہ بھی بیان ہوگا۔

 

munira salam
munira salam
Editor-in-chief at Salam News Punjab
RELATED ARTICLES
- Advertisment -spot_img

Most Popular

Recent Comments